Liberalism and Feminism
یہ دونوں وہ اصطلاحات ہیں جنکا پاکستان میں اتنا غلط استعمال ہوتا ہے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ مزہبی طبقے نے گالی بنا دیا ہے ان الفاظ کو اور جدیدیت کے حامیوں نے اسکو اپنی مرضی کے مفہوم پہنا رکھے ہیں۔ فیمنزم پر میں نے پوری اسائنمنٹ بنائی تھی اپنے ماسٹرز میں اور جب اس پر تحقیق کی تو میرا تو دماغ جھنجھنا گیا کہ اصل معاملہ تھا کیا اور بن کیا گیا ہے ۔ مختصر ترین طور پر اگر بتائوں تو دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکہ نے دوبارہ اپنی معیشت کو سنبھال کر ترقی دی تو بے پناہ وسائل حکومت نے پیدا کرلیئے۔ کاروبار کو فروغ ملا تو شدید افرادی قوت کی کمی ہوگئ۔ آج سے سو ڈیڑھ سو سال قبل آپ اندازہ لگائیے کہ کسی دوسرے ملک سے افرادی قوت لانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ محنت مشقت کے کام الگ انتظامی معاملات میں معاونت کیلئے انسان کہاں سے لائیں؟ تب کے وقت امریکی خواتین ہمارے آپکی طرح تعلیم حاصل کرکے بھی گھربیٹھ کر وقت گزارتی تھیں۔تب خواتین کو جو مسائل درپیش تھے انکا اندازہ لگایا گیا۔ تقریبا سب وہی مسائل جو ہم آج تک جھیل رہے، ہراسانی ، جو دو چار خواتین نوکری کر رہی تھیں انکو معاشرے میں سخت تنقید کا سامنا تھا، تعلیم یافتہ خواتین بھی کام کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیج دے رہی تھیں ، ایک کمانے والا ہوتا تھا گھر کا دس کھانے والے تو انکا گزارا مشکل ہوتا تھا وغیرہیہ نظریہ بنایا گیا کہ خواتین کو بھی گھر بیٹھ کر کھانے کی بجائے کمانا چاہیئے۔ چونکہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوں گی تو گھریلو تشدد بھی برداشت نہیں کریں گی۔ جی ہاں یہ اس دور میں معمول تھا کہ مرد باہر کما کرلاتے گھر آکر کھاتے اور پکانے والی پر باہر کا غصہ بھی اتارتے۔ یہ سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا نظریہ بنا۔ خواتین میں ملکی ترقی کا حصہ بننے کیلئے جوش کیا آنا تھا بس خودمختاری جیسے خوبصورت الفاظ نے انکو مسحور کیا۔ سب نے کام کیا ملک نے ترقی کی حکومت کو فیمنزم نامی نظریئے سے اپنے تقریبا اسی فیصد اہداف حاصل ہوئے۔ لبرلزم کی بھی تاریخ پڑھیں تو اٹھارویں صدی میں مغرب میں یہی سب کچھ ہو رہا تھا جو ہمارے یہاں ہورہا ہے آجکل۔ عیسائی فرقے فرقے تھے۔ ایک فرقہ دوسرے کو تو چھوڑو ایک گرجا دوسرے گرجے کو برداشت نہیں کر رہا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں قتل و غارت ہوا ہے پادریوں کی حمایت میں پادریوں کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے۔ نتیجہ وہی ہوا جو آج کل ہورہا۔ لوگ مذہب کو قصور وار سمجھ کر اس سے دو رہوتے گئے۔۔کچھ کٹر مزہبی ہوگئے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اعتدال کا رویہ بھی اپنایا۔ جو مزہب پر کاربند تھے مگر مزہبی تشدد کے حمایتی نہیں تھے۔ ایسے لوگ خود کو لبرل کہلانا پسند کرتے تھے۔ اب آتے ہیں پاکستان کی طرف۔ ذیادہ دور نہیں پچھلے ہفتوں میں سوات میں ایک پنجابی سیاح پر توہین قرآن پاک کا الزام لگا کر زندہ جلا دیا گیا۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پر جتنا مزمتی بیان لکھوں کم ہے ۔مگر سوچا آپ نے جلانے والوں نے کس کا استعمال کیا ؟ مذہب کا۔ شدید مزہب سے دور طبقہ ہیلوین منا رہا ہے لوگ لادین کہلانے پر فخر محسوس کر رہے ہیں مگرتشدد پسند نہیں ہیں۔ اور تیسرے ہم ہیں۔ جو مزہب پر بھی کاربند ہیں لادین نہیں ہیں اور پرتشدد بھی نہیں۔ ہم کیا ہیں ؟ ہم ہیں لبرل لوگ۔۔۔ کیا آپ نہیں ہیں لبرل؟کیا لبرل کا لیبل آپکو برا لگ رہا؟فیمنزم کی بات کریں تو بہنو آپ اس ملک کی افرادی قوت ہیں۔آپکا ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ آپ نے برابری کی سطح پر لڑکوں کے ساتھ پڑھ کر پروفیشنل ( پیشہ ورانہ) ڈگری لی ہے اور اب آپ گھر بیٹھ کر اس ملک کو کیا فائدہ پہنچا رہی ہیں؟ اس وقت آپکے ملک کو آپکے گھر کو آپکی تعلیم کو درست استعمال میں لانے کی ضرورت ہے تو اگر آپ کو اکسانے کیلئے ایک نظریہ چلیں فیمنزم نام نہیں رکھتے۔ نام رکھتے ہیں خود اعتماد خواتین مہم لائی جائے۔ ہر پڑھی لکھی خاتون نوکری کرے۔ اپنے گھر والوں کو اس مہنگائی کے دور میں چار پیسے کمانے میں مدد دے تاکہ آپکا باپ بھائی شوہر کبھی معاشی مسائل سے گھبرا کر خود کشی کرنے کی بجائے یا دو نوکریاں کرکے بجلی کے بل بھرنے کی بجائے آپکی مدد سے بنا ہاتھ پھیلائے گھر کا خرچ چلانے کے قابل ہو تو کیا یہ برا نظریہ ہے؟ اگر برا ہے تو آپ نا مانیں۔ فیمنزم کی تحریک بھی نہ فورا کامیاب ہوئی نا ہی سب اس سے متاثر ہوئے۔ جنہوں نے نوکریاں نہیں کرنی تھیں نہیں کیں ۔ پھر چاہے انکا ملک امریکہ کی طرح ترقی یافتہ ملک ہو یا پاکستان کی طرح دیوالیے کے دہانے پر کھڑا ہو۔