بیوہ کا قتل، مردوں کا شقی القلب ردعمل: کیا یہی ہے پاکستانی مرد کا زعمِ فضیلت؟
میری نیوز فیڈ میں ایک ویڈیو آئی جس میں ایک داڑھی والا خبیث انسان ایک اسکول میں گھس کر بچوں کے سامنے ایک بیوہ عورت کو ذبح کرکے خوں آلود چھڑی لہراتا اکڑ کر چلتا ہوا چلا گیا۔
میں سوچتی تھی کتنے شقی القلب ہوتے ہوں گے قاتل مگر اسی پوسٹ کے نیچے کمنٹس پڑھے تو احساس ہوا پاکستانی مرد ہیں ہی شقی ۔ انکو عورت نصیب ہی نہیں ہونی چاہیئے۔
کوئی کہہ رہا کہ آخر کوئی بتائے اس بیوہ عورت کو قتل کیوں کیا گیا۔
بڑے سے بڑے مجرم کو بھی قتل کا اختیار ایک عام انسان کو اللہ نے نہیں دیا کجا ایک جیتی جاگتی عورت ایک انسان کو ذبح کرکے ایک رزیل انسان خود کو جانے کیا سمجھتا اکڑ کر چلتا جا رہا ہے اسکے قبیح فعل کو جواز دیئے جا رہے ہیں۔
میری دو پوسٹس وائرل ہوئی ہیں جن میں میں نے صرف قرآنی احکامات کے مطابق خواتین کے حقوق بیان کیئے ہیں اس پوسٹ کے نیچے مردوں کے کمنٹس پڑھیں تو افسوس ہوتا ہے کہ یہ مرد کسی بے چاری کا نصیب برباد کریں گے۔ ان مردوں کو زعم ہے مرد ہونے کا یہ بھول جاتے ہیں کہ شیطان کی آپ کی زندگی سے کئی گنا سال ذیادہ عبادت و ریاضت اسکے غرور کے ہاتھوں ملیامیٹ ہوگئ آپ تو کوئی شے ہی نہیں ہیں۔
نہ آپ تقوی میں ذیادہ ہیں نہ آپ اخلاق و کردار میں بہتر ہیں۔
آپکی بد زبان سے یہی اندازہ لگ سکا ہے آپکی شخصیت کے بارے میں۔
پھر جو خواتین آکر ایسی ذہنیت والے مردوں کی حمایت میں کمنٹ کر رہی ہیں انکی زبان و بیان بھی ماشااللہ سے نفرین لائق ہے۔ دلیل انکے پاس ہے نہیں اور زبان و بیان تو ایسا ہرگز نہیں کہ کوئی کمنٹ پڑھ کر متاثر ہو انکی بات سے۔
انکے نزدیک ایک انسان کی غلامی بہترین طرز زندگی ہے۔ محترمائوں اللہ نے خواتین کو ذمہ داریاں کم دی ہیں ۔ کمتر انسان نہیں بنایا ہے۔ مرد کو فضیلت حاصل ہے یہ جس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے اسکے آگے پیچھے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ طلاق اور رجوع کے حوالے سے بات کی گئ ہے۔مرد کے حق میں جو فضیلت ہے وہ یہ ہے کہ انکو نگہبان یا نگران مقرر کیا ہے۔ خواتین کو مرد کا غلام بننے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ بلکہ چونکہ مرد کے ذمہ نان نفقہ ہے عورت کا خیال رکھنا اسکی ضرورتیں پوری کرنا ہے اسکے فرائض ذیادہ ہیں فضیلت سے مراد ذیادہ کے ہیں یہاں۔۔اگر عربئ پڑھیں تو پتہ لگے کہ ہمارے مولویوں نے اکثر الفاظ اور بیانات کے درست ترجمے ہی نہیں کیئے ہیں ۔
اب بات اطاعت کی آتی ہے تو
گھر سے باہر کا کام مردوں کا ہے سو اگر وہ کسی بگاڑ یا خرابی کے باعث اپنے اہل خانہ کو کہیں جانے سے روک سکتے ہیں۔ مگر یہی مرد اگر عورت کو ناجائز روک ٹوک لگائے گا تو قیامت کے دن حقوق العباد کی کوتاہی کی ذد میں آجائے گا۔
یہیں اگر وہ نماز قرآن یا کسی جائز بات سے روکے گا تو عورت پر اسکی اطاعت واجب ہی نہیں۔
اب ذرا سوچیں کہ آپ ایک باڈی گارڈ رکھیں اسکا کام ہے کہ آپ پر آنچ نہ آنے دے اور وہی باڈی گارڈ آپ کو کہے کہ چونکہ میں آپکی حفاظت پر معمور ہوں لہذا میرے پائوں دبائو میرے ذاتی کام کرو کھانا پکا کر دو۔کیا آپ برداشت کریں گے؟
قرآن و سنت کی کوئی ایک حدیث کوئی ایک آیت عورت کو مرد کی ان ذاتی خدمات پر مجبور نہیں کرتی۔
اب جو لوگ مثالیں دیتے کہ بی بی فاطمہ ع چکی پیستی تھیں۔ تو حضرت علی ع کا ایک جملہ کہیں سنا دیں کہ انہوں نے بی بی فاطمہ ع سے کہا ہو کہ یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ البتہ آپکو یہ تاریخ میں آسانی سے روایت مل جائے گی کہ جنگ وجدل دنیاوی دینی معاملات بھگتانے والے خلیفہ وقت نے گھر میں آکر اپنی بیوی کو کام کرتے دیکھا تو ٹوکا مت چکی پیسہ کرو اور اکثر خود بیٹھ کر انکی جگہ چکی پیستے تھے۔
وہ آپ اور آپ جیسوں سے کہیں ذیادہ مصروف اور با عمل انسان تھے۔
مزید آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے۔
بی بی فاطمہ ع کے پاس بھی اماں فضہ نامی کنیز موجود تھیں۔ جو انکے گھر کے امور میں مدد گار تھیں۔
آخری بات
رسول خدا ص اور حضرت علی شیر خدا ع نے اپنی اپنی پہلی بیوی کی زندگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا۔ یہاں تک کے رحلت کے وقت بی بی فاطمہ ع نے وعدہ لیا تھا حضرت علی ع سے کہ وہ دوسری شادی کریں گے۔ ورنہ شائد وہ دوسری شادی کرتے بھی نہیں۔
یہ ہے اصل اسلام یہ ہے اصل واقعات۔
جو آپ لوگوں کے ذہن میں بیٹھا ہے وہ ہندوستان کی سماجی روایتیں ہیں جہاں بیوی گھرشوہر کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی نہیں کھا سکتی تھی۔
تو اصل اسلام آپکے مولوی کے سکھائے اسلام سے کہیں ذیادہ روشن خیال ہے۔ اسلام خواتین کو وہ والا پروٹوکول دیتا ہے جو کسی شہزادی کو ہی نصیب ہوتا ہوگا۔
مگر۔۔۔۔۔۔
