ثانیہ ذہرا کیس۔پورا سوشل میڈیا اس کیس کی تفصیلات سےبھرا ہوا ہے اور میں لکھ لکھ کر مٹا رہی کیا لکھا جا سکتا ہے اس بارے میں؟۔ بیس سال کی لڑکی جو تین بچوں کی ماں ہے یعنی اسکی شادی کم ازکم بھی سولہ سترہ برس کی عمر میں کی گئ تھی۔ سولہ سترہ برس کا لڑکا ہاف پینٹ میں کدکڑے لگاتا پھرتا ہے تو اسے بچہ کہا جاتا ہے اور سترہ برس کی بچی کو عورت سمجھ کر بچے پیدا کرنے کی مشین بنانے بھیج دیا گیا۔ جہاں اسکے شوہر کا پہلا جھوٹ یہ کھلا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ دو بچوں کا باپ ہے۔ اس بات پر کہ یہ سب چھپایا گیا گھر والوں نے کیس کیااور پھر دوبارہ بیٹی سسرال بھیج دی۔ اس دفعہ اس شخص نے جسکا نام سید علی رضا بخاری ہے اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسکے دانت توڑ دیئے زبان کاٹ دی ہاتھ پیر کچل دیئے اس صورت میں کہ وہ چھے مہینے کی حاملہ بھی تھی اور اسکے دو بچوں کی ماں بھی تھی۔ اسی پر بس نہیں اسکو گلا گھونٹ کر مار دیا ۔ اسکے جسم پر کانچ کے ٹکڑے ملے جن سے اسے اذیت دی گئ ۔خون آلود قینچی بھی دراز میں رکھی تھی۔ اب لاش کو ٹھکانے لگانے کیلئےاس نے پنکھے سے پھندا لگا کر لٹکا دی ۔ یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ خودکشی کی ہے۔دنیا کا کون سا گھر کونسا کمرہ اتنا سائونڈ پروف ہے کہ یہ سب ایک گھر میں ہوتا رہا اس لڑکی کی نا چیخ و پکار کمرے سے باہر گئ نا بھرے پرے سسرال میں کسی کو اتنی غیرت آئی کہ بیٹے کو روکتے ہی اسکے اپنے لیئے ہی کہ مر گئ یہ بیوی تمہاری تو کچھ سزا تمہیں بھی ملے گی؟ محلے والے تو بعد کی بات ہیں گھر کے اندر یہ سب ہوا اور کانوں کان کسی کو خبر نہ ہوئی؟ نہیں ہوئی خبر۔ جب اس لڑکی کے گھر والے لاش لینے گئے تو ساس نے کہا یہاں شور نہ کرو اپنے گھر لے جائو۔ یہ ایک جیتی جاگتی لڑکی تھی خدایا۔ انسان تو سمجھاہوتا اسے۔ یہ کونسا دردندہ صفت انسان تھا جسے یہ سب کرنے کا خیال آیا اس نے اپنے خیال کو پایہ تکمیل تک بنا کسی خوف کے پہنچایا۔ نا دنیا کا ڈر نا خدا کا۔ لڑکی اسکے لیئے کیا تھی موم کی گڑیا؟ ایسا طاقت کا نشہ ایسا غرور؟ میرا دل رو رہا ہے یہ لکھتے ہوئے کہ یہ ہو رہا ہمارے ملک کی بیٹیوں کے ساتھ اور ہمارے ملا دوسری شادی کی تاویلیں گھڑ رہے بیوی پر تشدد ہلکی پھلکی مار جائز قرار دیتے، مرد کا مقام رتبہ بتاتے نہیں تھکتے، بیوی کا ریپ جائز قرار دیتے۔ہاں دو ان کو بیٹیاں۔ تم لوگوں پر بھاری ہی اتنی ہیں بیٹیاں۔ سترہ سال کی بارہ سال کی بیٹیاں زندہ قربان کرو۔ نا پڑھائو نا لکھائو بس بیاہو ان وحشی درندوں سے۔ جب بیٹی پٹ کر آئے تو اسے سمجھا بجھا کر واپس مرنے بھیجو۔ مری ہوئی بیٹی منظور ہے طلاق یافتہ نہیں۔ اللہ ایسے والدین کو بیٹیاں دیتا ہی کیوں ہے؟ ہاں اس بچی کے والدین کیلئے ہی جملہ ہے میرا۔ کیا ایسی مجبوری تھی کہ سترہ سال کی بچی کو شادی شدہ مرد سے بیاہ دیا۔ کس سطح کی بے خوفی حکمرانی طاقت کا نشہ ہوگا جو ایک مرد کو خونخوار جانور بنا گیا۔ اس بچئ کی اسکی نظر میں کیا اہمیت تھی انسان بھی سمجھا تھا اسے؟ صرف بیس سال کی یہ دردناک زندگی پانے والی ثانیہ نے آخر اس دنیا سے کیا سیکھا؟ تم دو ٹکے کی عورت ہو۔ ہزار قانون بنا لیں ہزار پولیس کیس بنالیں جب تک یہ ذہنیت رہے گی کہ بیٹی بوجھ ہے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔