بچپن میں ایک آنٹی مما کو اپنے دکھڑے سناتی تھیں تب سنا تھا بڑوں کو ذکر کرتے اور اب ان آنٹی کا حال دیکھ کر سوچتی کہ انہیں اس وقت طلاق لے لینی چاہیئے تھی۔
میری یہ آنٹی خوب پڑھی لکھی تھیں ایک اچھی پیشہ وارانہ ڈگری انکے پاس تھی مگر قسمت کہ اچھا رشتہ جو ملا وہ ان سے سترہ سال بڑے شخص کا ملا۔ وہی ہوا جو ایسی شادیوں میں ہوتا۔ یہ جوان اور حسین تھیں میاں درمیانی ڈھلتی عمر کے۔نوکری وہ کرتی تھیں نہیں اب تو سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ انکے وہ شک کرتے تھے ان پر۔ یہ گھر میں اکیلی ہوتی تھیں روز گھر فون کرتے وقت بے وقت ذرا دیر سویر ہوتی فون اٹھانے میں ان سے باز پرس ہوتی۔ موبائل فون تو انکے پاس تھا ہی نہیں گھر کے فون پر بچوں دے تصدیق کرواتے کہ امی کچن میں ہی ہیں نا کہیں آئی گئ تو نہیں وغیرہ
اب بچے پھر اسی ذہن کے بن چکے تھے۔ ایک ایک بات ابا کو بتاتے۔ وہ آنٹی دل کی باتیں مما سے کرتیں مما افسوس کےسوا کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔ شادی نبھانی تو تھی۔ مزید خدا جانے اس ذہنی تشدد کے ساتھ انہوں نے جسمانی تشدد سہا یا نہیں۔ ہلکا پھلکا تھپڑ وغیرہ تو تشدد میں آتا بھی نہیں۔
اب ان آنٹی کے بچے جوان ہو چکے ہیں شادیاں ہو گئ ہیں انکی اور وہ مکمل طور پر ذہنی مریض چڑچڑی عورت بن چکی ہیں۔ بیٹھے بیٹھے سر چکراتا رہتا شدید غصہ ور ہیں۔ ہر وقت خود کو بیمار کہتی سمجھتی ہیں۔ ذودرنجی عروج پر رہتی ہے۔ بھلکڑ پن طاری رہتا ہے۔کچھ بھی بول دیتی ہیں کچھ بھی بھول جاتی ہیں۔ بچے انکے ساتھ آتے جاتے الرٹ رہتے ابھی امی کچھ الٹا سیدھا نہ کہہ دیں۔
انہوں نے جوانی سختیاں سہتے گزار دی ہےاب شوہر نرم پڑ چکے ہیں بچے جوان ہیں وہ اپنی پوری جوانی لٹا چکیں انکی پرورش پر تو اب شوہر کو ان پر شک نہیں ہوتا۔ پھر بیٹا جوان ہو جائے تو کونسا باپ ماں سے اونچی آواز میں بات کرسکتا۔ راوی چین ہی چین لکھتا ہے بس۔۔
بس ایک وہی ہیں جو ذہنی مریض بن چکی ہیں۔