ہم بچپن میں ایک پرانی حویلی میں رہتے تھے جو بہت بڑی تھی۔ اور جتنئ بڑی تھئ اتنی آسیب ذدہ۔
دن میں سیڑھی یا چھت پر جائو تو لگتا پیچھے کوئی آرہا ہے۔ جیسے پرانے گھر ہوتے اس میں باتھ روم کمرے کے ساتھ نہیں تھا۔ پورا صحن گزار کر جس میں بیچوں بیچ امرود کا درخت تھا کہ ہم اسکے نیچے سے گزر کر باتھ روم جاتے تھے۔ تو ہم بچوں کو سختی سے منع تھا کہ اکیلے رات کو نہیں جاناباہر ۔ اگر ضرورت پڑے تو بڑوں میں سے کسی کو اٹھا کر ساتھ لیکر جائو۔
اب اس معاملے سے نمٹنے کیلئے گیارہ بجے باریاں لگتی تھیں۔ سونے سے قبل سب بچے باری باری فارغ ہوتے والدین ہمیں بستروں میں لٹا کر پھر سو نے جاتے۔ باتھ روم ایک طرف تھا دوسری طرف کچن تھا۔ ایک دن میرے والد کچن میں تھے قہوہ بنا رہے میری بہن باتھ روم میں اور اپنی باری کا انتظار کرتی باتھ روم کے آگے صحن میں کھڑی کمروں کی طرف دیکھ رہی تھی کہ اچانک ایک کمرے میں ٹیوب لائٹ جلنے لگی۔ پرانی جیسے جھپک جھپک کر جلتی تھیں۔ ایک جھپاک دوسرا جھپاک اس میں مجھے ایک ہیولا نظر آیا کہ میرے والد کمرے میں کھڑے ہیں۔ اور لائٹ ابھی جلی نہیں تھی جھپک رہی تھی۔ میں نے فورا ہاتھ ہلایا پکارا آپ وہاں کیا کررہے ( وہ کمرہ تایا تائی کا تھا اور وہ گھر میں نہیں تھے تو کمرہ بند تھا)کہ پیچھے سے آواز آئی جیسے کچن میں کھٹ پٹ ہوتی ہے۔ میں نے سوچا والد سامنے ہیں تو کچن میں کون مڑ کر دیکھا تو والد کچن میں اپنا قہوہ نکال رہے تھے
۔ واپس مڑ کر دیکھا تو کمرے کا دروازہ پکا بند پردے برابر گھپ اندھیرا۔ایکدن اسی طرح رات کو میری آنکھ کھلی۔ میرا بھائی سامنے آئینے میں کھڑا بال بنا رہا تھا۔میں خوش ہوگئ کہ اب بھائی کو کہوں گی صحن میں کھڑا رہے اور میں باتھ روم چلی جائوں گی۔ لیکن وہ جما جما کے ہیئر اسٹائل بناتا رہا۔ میں نے پکار کر کہا اتنی رات کو کنگھی کیوں کر رہے ہو سونا ہی تو ہے؟ اس نے جواب نہیں دیا۔ میں اٹھنے لگی تبھی بیڈ پر کروٹ بدلنے سے ہلکی سی چرچراہٹ ہوئی۔ میں نے مڑ کر بھائی کے بیڈ کو دیکھا تو وہ بے خبر سویا ہوا تھا بیڈ پر۔ اب جب دوبارہ آئینے کی طرف دیکھا تو وہ جگہ بالکل خالی تھی ۔ اس دفعہ وہاں ہلکی ہلکی روشنی بھی آرہی تھی جیسے اس سے قبل کسی کے کھڑا ہونے کہ وجہ سے آڑ ہوگئ ہو۔