LATE NIGHT HORROR STORY TIME
یہ بچپن کی بات ہے یہ بتا دوں یہ یاد مجھے ایسے یاد ہے جیسے بڑے ہو کر باتیں یاد رہتی ہیں مکمل جزئیات کے ساتھ۔ عجیب سننے میں لگتا مگر مجھے اپنی سال بھر کی عمر سے ہر یاد بہت اچھی طرح یاد ہے۔ ایک آدھ یاد مجھے اس سے بھی کم عمر کی یاد ہے جس پر بتانے پر بڑے یقین بھی نہیں کرتے مگر جب میں نے یاد کرایا تو انہوں نے کہا ہاں ایسا توہوا تھا۔خیر اس تمہید کا مقصد صرف یہ جتانا تھا کہ کوئی مسلئہ ہے میرے ساتھ 😅خیر میں اپنے والدین کے ساتھ اپنے تایا کے گھر گئ۔ انکی ایک بیٹی مجھ سے چھے مہینے بڑی تھی۔ یہ بچی اپنے باقی بہن بھائیوں سے بہت چھوٹی تھی اپنے آخری بھائی سے قریبا آٹھ نو سال چھوٹی تو یہ واحد بچی تھی گھر کی تو ہمیشہ اکیلے کھیلتی تھی۔ میں گئ تو ہم دونوں کھیلتے اکٹھے۔ ایک دن ہم دونوں انکے گھر کی دوسری منزل پر چھپن چھپائی کھیل رہے تھے بڑے سب اوپر ہی تھے ہم ادھر ادھر چھپتے پھر رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ایک بچہ اور بھی کھیل رہا تھا۔ ہمارا مسلئہ یہ کہ ہم دونوں جہاں بھی چھپتے وہ ہمیں جا لیتا۔جبکہ ہم دونوں اسے ڈھونڈ نہیں پاتے۔ تنگ آکر ہم نے یہ کیا جب ایک دوسرے کی باری آتی ہم پکارتے میں یہاں ہوں مجھے ڈھونڈ لو۔ وہ بھاگ کےآکے مجھے ڈھونڈ لیتی۔ اس بات پر بڑے ہنس رہے تھے کہ کیسی بیوقوف بچیاں ہیں خود بتا رہی ہیں ہم کہاں چھپے۔خیر کھیلتے کھیلتے ہم دونوں چھپ گئے۔ جب کافی دیر آواز نہ آئی تو میری مما کو فکر ہوئی ہم دونوں کہاں ہیں۔ وہ پکارنے لگیں میں نے فورا جواب دیا ہم دونوں اسٹور روم میں گھسی چھپی بیٹھی تھیں۔مما نے آکر ہم سے پوچھا دونوں چھپی بیٹھی ہو تو ڈھونڈ کون رہا ہے۔ ہم نے جواب دیا نام لیکر ( نام نہیں لکھ رہی) وہ ڈھونڈ رہا ہے۔مما حیران ہوگئیں۔بولیں کہاں ہے وہ۔ تبھی وہ ہمارے ساتھ آکھڑا ہوا۔ میں نے کہا یہ رہا۔
مما کو یہ پتہ تھا میں جھوٹ نہیں بولتی ہوں۔ سو ہم دونوں کو لیکر باہر آئیں اور تایا سے پوچھنے لگیں کوئی پڑوس کا بچہ آیا ہوا ہے؟ تایا زور سے ہنسے کہا نہیں کیوں ۔ مما نے نام لیکر بتایا کہ یہ دونوں اسکے ساتھ کھیل رہی ہیں مگر یہاں کوئی بچہ تو ہے نہیں۔ تایا پھر ہنسے اور ہنس کر بولے کہ یہ تو خود سے نام رکھا ہوا ہے اس نے اپنے خیالی دوست کا۔ ایسا کوئی بچہ ہے ہی نہیں یہ اکثر نام لیتی ہے کہ میں فلاں کے ساتھ کھیلتی ہوں۔اب اکیلی بچی ہے گھر میں تو ایسا تو کرے گی۔ یہ سب باتیں اس بچے کے سامنے ہورہی تھیں۔ مجھے میری کزن نے کہا میں نے کہا تھا نا یہ لوگ یقین نہیں کرتے۔ وہ بچہ بولا اچھا میں جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ گیا بھی ایسے کہ وہ چلتے چلتے ہماری آنکھوں کے سامنے غائب ہوگیا
۔ اس بات کو میرے والدین نے مجھ سے بعد میں پوچھا میں پٹر پٹر بولتی تھی سب بتایا ۔ اور اسکے والدین نے تو نہیں میرے والدین نے میری بات کا یقین کیا۔ کیونکہ اگر وہ میری کزن کا خیالی دوست تھا تو میں کیسے دیکھ سکتی تھی اسے۔ اسکے بعد میں جب جب اکیلی بیٹھی کھیلتی بولتی نظر آتی بڑوں میں سے کوئی نہ کوئی پاس آکر بیٹھ جاتا کرید کرید کر پوچھتا ۔ کس سے باتیں کر رہی ہو کوئی نظر تو نہیں آرہا وغیرہ 🤣 لیکن وہ دوست دوبارہ کم از کم نظر نہیں آیا مجھے۔