Why Jama Taqseem is triggering real conversations about cousin harassment”
جمع تقسیم ڈرامے کے بارے میں پچھلے ہفتے بھر سے بات ہو رہی ہے کیسے ایک چھوٹی سی لڑکی اپنے سگے تایا زاد کے ہاتھوں ہراسانی کا شکار ہوئی گھر میں تیرہ چودہ افراد کے ہونے کے باوجود وہ مسلسل اسکی وجہ سے بلیک میل ہوئی اپنی پریشانی ماں تک کو نہ بتا سکی۔
جوائنٹ فیملی سسٹم میں اس طرح کسی کزن کے ہاتھوں پریشان ہونے والے تو اکثر گھروں میں الگ خاندان رہنے والوں کے ہاں بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں جہاں ماں کاموں میں مصروف ہے گھر میں مزید کوئی بڑا نہیں بچے کہیں پڑوس میں پھر رہے غیر ضروری رشتے داروں کی آمد بہت ذیادہ ہے یا ماں باپ بڑے مزے سے بچے یا بچی کو کسی بھی رشتے دار کے ہاتھوں تھما دیتے ہیں جائو باہر گھما لائو اسے، یا فلاں چاچا فلاں ماموں کے پاس چھوڑ کر تسلی سے باہر کوئی دعوت نبٹا آئے خریداری کر آئے۔
آپکے بچے آپکی ذمہ داری ہیں۔ آجکل کا جو ماحول ہے سگے رشتے دارو ں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا دور کے رشتے پر اندھا بھروسہ کیسے کرلیتے؟ پھر سب سے عام چیز جو ہے وہ یہ فلاں رشتے دار کے یہاں بچوں کو چھوڑ دیا بھلے سگے خالہ ماموں پھپھو چاچا ہوں انکے بچے آپکے بچوں کے محرم نہیں ہیں۔ سو باتیں ہو سکتی ہیں۔
میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں پلی بڑھی ہوں۔ مجھے یاد ہمیں ٹوکنے سمجھانے والے آدھے درجن لوگ تھے۔ جو سرپرست بھی تھے۔ ایک دفعہ میرے ایک کزن جو ہم سے عمر میں بڑے تھے تو جب ہم بچے تھے تو وہ جوان تھے۔ اپنے ایک دوست کے ساتھ کسی کام سے آئے ہمارے گھر ٹھہرے۔ میرے کزن شریف انسان انکے دوست بھی کوئی اٹھائی گیرے نہیں تھے جبھی وہ اپنے رشتے داروں کے ہاں انکے ہمراہ آٹھہرے۔
اب ہوا یوں چھٹیاں تھیں گیارہ بارہ بجے پھپو سے ناشتہ بنوا کر کھا پی کر میں انہی دوست کے پاس آبیٹھی۔ وہ مجھے کاغذ کی کشتی بنانا سکھا رہے تھے۔ میرے بڑے بہن بھائی بھی کمرے میں کھیل رہے تھے کزن کے ساتھ۔ پھپو نے بلایا کہ ناشتہ پورا کرلو میں انہیں بتا کرکہ میں کاغذ کی کشتی بنانا سیکھ رہی ہوں واپس جانا چاہتی تھی ۔ اب پھپو ایکدم سے سوال پر سوال کرنے لگیں، کیوں؟ تم کو ہم سکھا دیں گے ادھر نیچے کھیلو ، وغیرہ میں چڑ گئ بھئ میں کیوں نیچے کھیلوں جب باقی سب اوپر ہیں میرا یہ کہنا تھا تو وہ کچھ ٹھنڈی ہوئیں۔ بھائی بہن بھی ہیں کمرے میں ؟ میں نے کہا ہاں ہم سب اکٹھے کھیل رہے ہیں۔ تو انہوں نے سختی سے تاکید کی جب تک باقی بہن بھائی ہیں بس تب تک کھیلنا جیسے ہی وہ ادھر ادھر ہوں تم بھی نیچے آجانا ۔۔ مجھے تب سمجھ نہیں آئی بات مگر اتنی سختی تھی انکے انداز میں کہ سر ہلادیا ۔ مجھے یہ یاد رہا کہ مجھے صرف تب تک کھیلنا ہے جب تک سب اکٹھے کھیل رہے ہیں۔
اسی طرح ایک اور دفعہ ایک والد کے دوست آئے ہوئے تھے وہ کوئی کام کررہے تھے میں انکو کام کرتے دیکھ رہی تھی والد کہیں آگے پیچھے تھے۔ تائی امی نے یونہی آواز دی کہ کہاں ہو میں نے بتایا تو انہوں نے مجھے واپس جانے نہیں دیا بہلا کر اپنے ساتھ کھیل میں لگا لیا کہ اوپر انکل کے ساتھ نہ بیٹھو۔
انکل بے چارے واقعی اپنا کام کررہے تھے مگر جوائنٹ فیملی سسٹم میں بچوں پر نظر رکھنے انکا خیال رکھنے والوں نے کہاں کہاں کیسی کیسی احتیاط کی کہ کچھ غلط نہ ہو جائے۔
تو کہنے کا مقصد مسلئہ کسی ایک سسٹم میں نہیں آپکے گرد لوگوں میں ہو سکتا ہے۔
اب اپنی بات کروں تو گھر میں سب پڑھے لکھے تھے ، مگر پڑوس میں محلے میں ہم جن بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے ان کے گھروں میں اور ہمارے گھر کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق تھا۔اسی طرح اگر ددھیال ننھیال کا فرق دیکھوں تو ددھیال اچھا خاصا قدامت پرست اور ننھیال خاصا جدیدیت کا حامی تھا۔ والد کا حلقہ احباب کاروباری لوگ تھے تایا کے حلقہ احباب میں ادب سے تعلق رکھنے والے۔ گھر میں رشتے دار بھی بہت دندناتے پھرتے تھے۔ اور ددھیال والوں کا تو دوسرا گھر تھا مجھے یاد ایسے بہت کم دن ہوتے تھے جب صرف ہم گھر کے افراد رہ رہے ہوں ورنہ کوئی نہ کوئی رشتے دار آیا رہتا تھا مہمانداری اتنی تھی کہ اتنی آج تک اور کسی گھر کی نہ دیکھی لیکن بچوں کا خیال رکھنے والے بھی ایسے ہی تھے تائی نے دیکھ لیا ، پھپو نے خیال کرلیا تایا نے بہلا لیا والدین تو پھر والدین ہی ہوتے ہیں۔
آپکے گھر آنے والے لوگ سب کے سب پڑھے لکھے نہیں ہوں گے، شریف نہیں ہوں گے، آپکے اپنے گھر میں آپ اپنے بچوں کو زمانے کی جدید رتوں سے بچا سکتے ہیں آپکے بچوں کے ہم عمر یا ان سے بڑے لوگوں کو جانے کون کون سی ہوا لگی کیا کیا دیکھ چکے دنیا میں آپ انکو قابو نہیں کرسکتے۔سو اپنے کان آنکھیں کھلی رکھیں۔ اپنے بچوں کا خود خیال رکھیں۔کیونکہ آج کے دور میں اب اپنے اپنے بچوں کا خیال بھی رکھ لیں بڑی بات ہے کجا بھائی کے بچوں ، دیور کے بچوں کا کوئی پھپو کوئی تائی خیال رکھے۔
کیونکہ برا وقت رشتے نہیں کمزور انسان دیکھتا ہے۔ کون انسان کہاں نفس کے ہاتھوں زیر ہوجائے کون جانے۔آپ تو بس اپنی احتیاط ہی رکھ سکتے ہیں۔۔
