آپکو زندگی سے کیا چاہیئے؟پیسہ، شہرت ، رشتے، سکون، اطمینان وغیرہجس کے پاس جو نہیں اسے وہ چاہیئے۔ جیسے مجھے پیسہ چاہیئے خوب ڈھیر سارا۔ مجھے شوق ہے کہ میں دنیا گھوموں صرف ایک دو ملک نہیں مجھے ہر ملک جانا ہے۔ مجھے پہاڑ سمندر شہری زندگی نت نئے کھانے سب میں دلچسپی ہے۔ مگر ایک اس تھوڑی سی مشکل خواہش کے علاوہ باقی اللہ کا شکر ہے کوئی خاص کمی نہیں۔ زندگی اچھی لگتی ہے قسمت سے کچھ شکایتیں ہوتی ہیں بس۔مگر میں کیا تھی ا س زندگی سے پہلے؟ کچھ بھی نہیں۔ یہ اللہ کا احسان ہے اس نے کچھ نہیں کو کچھ تو بنادیا۔ زندگی دی ہے دنیا دی ہے اور یہ یقین بھی دیا ہے یہ سب ختم ہوگا تو ا سے بھی اچھا کچھ ملے گا جنت میں انشااللہ۔ موت ایک امید ہے کہ دنیا میں کوئی بچ نہ پائے گا۔ سب کو آنی ہے چاہے ہزاروں سال جی لو انجام یہی ہونا۔ یہ وہ یقین ہے جو مسلمانوں کو خاص کر جینے جیتے رہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
یہ ساری تمہید ہے اس بات کیلیئے جس نے مجھے اچھا خاصا دھچکا پہنچایا۔ پہلے پہل میں مزاق سمجھی مگر حقیقت ہے۔ایک بھارتی سماجی روابط کی فنکار تھی میشا اگروال۔ گول مٹول سی شرارتی سی لڑکی جو دلچسپ باتیں سنجیدہ سا منہ بنا کرکرتی تھی۔ اسکا طنز و مزاح اتنا اچھا تھا کہ میں نے اسکی ویڈیوز سے اسکا پروفائل جا کر فالو کیا۔ کوئی خاص بڑا سیٹ اپ بھی نہیں تھا یونہی کیمرہ سامنے رکھ کر مزے مزے کی باتیں کرنا زندگی کے متعلق اور ہنسا دینا۔ اسکے بھی لاکھوں فالوورز تھے۔ اپنا میک اپ برانڈ چلا رہی تھی ، پیسہ ٹھیک ٹھاک مل رہا ہوگا فیس بک انسٹا سے، شہرت بھی مل رہی تھی مگر اس کے باوجود اسے سکون اطمینان نصیب نہیں تھا۔ اس نے اپنی پچیسویں سالگرہ سے دو دن قبل خودکشی کرلی۔ پچیس کوئی سوچ سکتا ہے؟ لڑکپن میں بچے ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے خوب کشمکش کا شکار ہوجاتے خود پر قابو چھوڑ بیٹھتے چھوٹے چھوٹے معاملات پر بڑے فیصلے لے لیتے لیکن بیس سے پچیس تک انسان کی سب توانائیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ پچیسواں سال کسی جوان کا سب سے اہم سال ہوتا ہے ۔ اس میں آپ کو زندگی میں جو سب ملنا ہوتا ہے مل چکا ہوتا ہے۔ دماغ سب سے ذیادہ متحرک ہوتا ہے، دل جوان ہوچکا ہے، ہاتھ پائوں اس وقت بہترین حالت میں ہیں۔ آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں آپکو کچھ کرنے سے کم از کم آپکا جسم نہیں روک سکتا۔ یہ سال خوش ہونے کیلئے ہی کافی ہے۔ پھر ایک ایسی لڑکی جس کے پاس کوئی جسمانی کمی نہیں، پیسہ ہے شہرت ہے ، ایسی کون سی کمی رہ گئ کہ موت کا انتخاب کیا جو اسے جلد یا بدیر آنی ہی تھی۔ کتنی کوئی زندگی ملنی ہے ہمیں پچاس ساٹھ چلو ستر اسی سال۔ ان سالوں کو گزارنے کیلئے پیسہ چاہیئے بس تاکہ کسی کے محتاج نہ رہیں ہے نا؟ وہ تھا اسکے پاس۔شہرت کا شوق ہوتا ہے نا؟ وہ بھی تھی پاس پھر بس ایک کمی ایسی جو اسے اپنی بھرپور زندگی سے منہ موڑنے پر مجبور کرگئ کیوں؟ مجھے اتنا افسوس ہوا ہے کہ جو لوگ آپکے سامنے ہٹے کٹے خوش نظر آرہے ہوتے ہیں درحقیقت اندر سے کتنے ٹوٹے ہوئے ہیں اپنی اپنی جنگ لڑ رہے ہیں۔
برائے مہربانی اپنے گرد لوگوں پر نظر رکھیں۔ بظاہر مضبوط و خوش نظر آنے والے لوگ اندر سے ختم ہو رہے ہیں۔ ایکدن خودکشی کرلیں گے نہیں تو دل کا دورہ پڑ جائے گا کیونکہ دل سہہ سہہ کر کمزور ہورہا ہے انکا۔ اب سمجھ آتا ہے اسلام صلح رحمی پر اتنا زور کیوں دیتا، اچھے اخلاق والا انسان اتنا مرتبہ کیوں رکھتا ، کیوں ایک فرض عبادت کیلئے مسجد جاکر لوگوں کے ساتھ ایک انسان کے پیچھے درجنوں انسانوں کے ہمراہ ادا کرنے کا حکم دیتا، کیوں کہا جاتا جہاں تین دن سے ذیادہ قطع تعلق منع کیا جاتا، جہاں پیٹ پیچھے برا بھلا کہنےکو غیبت اور حرام قرار دیا جاتا جہاں مسکرا کر دیکھنا صدقہ ہے۔ ہم نہیں جانتے ہمارا ایک برا رویہ کسی کے ضبظ کے پیمانے کو چھلکانے کیلئے کافی ہے ۔ حالانکہ اس سے قبل ہم نے اسکا ضبط کبھی نہیں آزمایا مگر ایک آخری دفعہ کا دل ہم نے دکھا دیا۔
ہم وہ نسل ہیں جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر یقین رکھتے لیکن کیا ہم وہی نسل نہیں جس کو کسی سے تعلق بنانے ربط بڑھانے میں دلچسپی نہیں۔ ہمارے والدین کا جتنا حلقہ احباب ہے ہمارا اسکا ایک چوتھائی بھی نہیں۔ جہاں ہم مزاق اڑاتے ابا چچا کو سب بتا دیتے اماں خالہ کو پھر سہیلیاں اور دوست انکے الگ ۔ ہم اپنے بہن بھائیوں سے بھی فاصلہ رکھنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ دوست ایک آدھ سے ذیادہ نہیں۔ کسی بھی ذہنی پریشانی میں کسی پر بھروسہ تو دور اپنا ذہن بٹانے کیلئے بھئ انسان نہیں موبائل لیپ ٹاپ کافئ ہیں۔ نتیجہ سب کچھ ہے مگر کچھ نہیں ہے۔
ایک آخری بات۔ جب کبھی لگے زندگی ختم اب کچھ نہیں رہا بس ایک اس وقت اکیلے نہ رہیں اپنا ذہن بٹا لیں کسی سے بات کرلیں ہو سکے تو گھر سے باہر نکل جائیں وہ ایک لمحہ گزار لیں بس۔ خودکشی نجات نہیں ہے۔ مزہبی و دنیاوی ہرلحاظ سے تکلیف دہ ہے۔ اسکو اپنے اطمینان کا ذریعہ مت سمجھیں باقی اللہ ہم سب پر کبھی ایسا وقت نہ لائے آمین ۔