Skip to content
urdu blog, urdu blogging, urdu blogging course, urdu blogger theme free download, urdu blog adsense approval, urdu blogger, urdu blog writing, urdu blog earning, mrbeast urdu blog, alina urdu blog, elena urdu blog, bts urdu blog, safa urdu blog, urdu notebook blog, blogger from pakistan, blog pakistani, pakistani bloggers in turkey, pakistani news blogger, tayyab javed vlogs, blogging urdu, shifa daily vlogging, ramzan blogging, islamabad family vlog, bloggers in islamabad, istanbul pakistan vlog, blogger shaheen, blogger pakistan, blogging hisham sarwar, pakistani vlogger in istanbul, hooria vlog, does blogger pay you, blogger turkish, blogger kurdish, write blog on blogger, blog on pakistan, urdu vlogs germany, urdu vlog, blogger afridi, blogger masud, 100 blog posts, 300 uc, 7 series pakistan, 7 ka block, first income from blogging, 8 urdu
Menu
  • Privacy Policy
  • Sample Page
Menu

DSD transgender aur Islami nuqta nazar

Posted on July 27, 2024September 28, 2024 by admin

اولمپکس میں ایک پیدائشی نہ عورت نہ مرد نے اپنے آپ کو عورت کہہ کر عورت سے مقابلہ کیا۔ مقابل اٹلی کی لڑکی تھی اس نے اسکی ناک توڑ دی صرف دو مکوں میں۔ اس نے روتے ہوئے ہیلمٹ اتارا اور کہا یہ ناانصافی ہے۔یہ نا انصافی ہے۔ ایک مرد ایک عورت سے مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ البتہ اولمپکس میں ٹرانس جینڈر مقابلہ کر سکتے ہیں۔

ایمان خلیف کے بارے میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ وہ لڑکی ہی ہے اور ڈی ایس ڈی نامی بیماری کا شکار ہے۔ ڈی ایس ڈی نامی بیماری کے بارے میں پڑھیں تو اس بیماری میں جنس کی شناخت بدل بھی سکتی ہے جیسے بظاہر لڑکا اور دھیرے دھیرے لڑکیوں والےگن آجائیں وغیرہ اور جنس مرد و عورت کی ملی جلی کیفیت یعنی تیسری جنس بھی بن سکتی ۔اگر ایمان خلیف ڈی ایس ڈی نامی بیماری کا شکار ہے تو اول الزکر درجے میں آتی ہے اور اگر بنا کسی بیماری کے مکمل لڑکی ہے تو معاملہ ختم ہوجاتا ہے یہ لڑکی بمقابلہ لڑکی ہے۔اب بات تیسری جنس کی کی جائے توٹرانس جینڈر یا نامکمل مرد یا نامکمل عورت میں بھی تشخیص ہے کہ جو ذیادہ رجحان مرد کا رکھتا وہ مرد سمجھا جائے جو عورت کارکھا جائے وہ مرد اگریہ لڑکی کم لڑکا ذیادہ ہے تو اسکا مقابلہ لڑکی سے قطعی ناانصافی ہے۔دوسرا معاملہ یہ بھی ہے کہ ترجیحی مرد بھی اپنے آپکو عورت کہہ کر مقابلہ کرسکتا لیکن کیوں؟مغرب میں جس تیزی سے LGBTQ

نمو پا رہاہے

کچھ بعید نہیں کہ اولمپکس میں تنازعے بڑھتے ہی چلے جائیں۔ مغرب میں اس رجحان کی سب سے بڑی وجہ انکی مزہب سے دوری ہے۔ وہاں مزہب ایک اختیاری چیز بن چکا ہے۔ تو انکو صحیح غلط بتانے والا کوئی نہیں ، انکی ذہنی الجھنیں ذیادہ ہیں کہ ان پر معاشرے کی جانب سے کوئی قدغن نہیں۔ ایک خاندان کا تصور نہیں رہاہےوہاں لوگ اکیلے ہیں۔ خالی ذہن ہیں۔ کام کرتے ہیں اور پھر تفریح کا ہر جائز ناجائز ذریعہ آزماتے ہیں۔ سیکس اتنی عام ہے کہ مخالف صنف کی کشش ختم ہورہی ہے انکی نظر میں۔ اکیلے اتنا رہتے ہیں کہ خود ہی اپنے ساتھ جو چاہیں کرتے ہیں۔ ایک اچھا بھلا مرد خود کو عورت اور ایک اچھی بھلی عورت خود کو کسی قسم کی جنس سے مبرا قرار دے سکتی ہے۔ کیوں؟ انکی مرضی

۔کچھ نفسیاتی مسائل ہیں جن میں کوئی شخص ذہنی طور پر کسی الجھن کا شکار ہو کر خود کو دوسری جنس کے طور پر متعارف کرا کر خود کو مضبوط سمجھتا یے تو کچھ پیدائشی کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔قرآن میں تیسری جنس کا کوئی تصور نہیں ہے۔ قرآن صرف مردوں اور عورتوں سے مخاطب ہوتا ہے۔ یعنی خدا نے آپکو بس دو جنس میں پیدا کیا ہے عورت اور مرد

۔ سادہ الفاظ میں بتائوں تو عورت اور مرد کے جسم کا ایک ایک سیل متعین کرتا ہے کہ وہ عورت کا ہے یا مرد کا۔ عورتوں کے ہارمون اور مردوں کے ہارمون ہر انسان میں ہوتے ہیں۔ جنس کا تعین تب ہوتا ہے جب کسی انسان میں عورتوں کے ہارمون طاقتور ہوں یا مردوں کے ہارمون طاقتور ہوں ۔ یعنی ہمارے ہارمون ہمارے جسم میں برابر بھی ہو سکتے ہیں۔ جنہیں ہم ہیجڑا یا مخلوط جنس کا مالک کہتے ہیں۔ اب ہجڑوں سے قرآن مخاطب کیوں نہیں؟ اگر وہ سچ مچ اللہ کی بنائی مخلوق ہیں۔یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی بنا آنکھوں ، ہاتھ پائوں ، یا کسی دوسری معزوری کے ساتھ پیدا ہو جائے۔ بہت کم ایساہوتا ہے کہ بچہ مکمل طور پر تیسری جنس ہو ۔ ذیادہ تر یہ ہارمون اتنے مضبوط نہیں ہوتے یا تقریبا برابر برابر ہوتے ہیں کہ جنس کا تعین نہیں ہو پاتا۔ اسلام میں جو جس جنس سے ذیادہ مشابہت رکھتا ہے اسکے اسلامی طریق سے وضو کرتا ہے نماز پڑھتا ہے۔دوسری جانب نفسیاتی مسائل بھی ہیں۔ میں نے کچھ عرصہ قبل ایک ناول ایسی ہی ذہنی بیماری پر لکھا تھا۔ جسکو اسٹریس ڈیسفوریا یا جنڈر ڈیسفوریا کہتے ہیں۔

ہمارا دماغ اتنا طاقتور ہے کہ اگر آپ اپنے ذہن میں یہ دہراتے رہیں کہ آپکا قد ایک انچ بڑھ جائے گا سال کے آخر تک تو یقین کیجئے آپکا جس ایسی قوت پیدا کرے گا آپکے اندر کے سب ہارمون کو یہ پیغام دے گا کہ انہوں نے قد میں اضافے کا کام کرنا ہے۔ تو جو ذہنی بیماری میں مبتلا ہوں خود کو مرد یا عورت سمجھنے لگیں وہ اپنے ہارمون کو تنگ کر دیں گے اور انکے ہارمون کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ ان کے چہرے پر بال آسکتے ہیں ، انکے سینے کاابھار بن سکتا ہے انکے جنسی اعضاء میں تبدیلی آسکتی ہے لیکن یہ مکمل تبدیلی نہیں آسکتی کہ عورت مرد بن جائے یا مرد عورت۔ صرف وہ غیر متوازن ہو سکتے ہیں۔ آج تک سائنس کسی عورت کو مکمل مرد نہیں بنا سکی۔ مرد اپنے جنسی اعضاء کھو سکتے ہیں مگر عورت نہیں بن سکتے ماں نہیں بن سکتے

۔اسلام ہرگز بھی غیر فطری دین نہیں۔ اسکے احکامات واضح ہیں۔ صاف منع ہے دوسری جنس کی مشابہت اختیار کرنا۔ کیوں؟ آج سائنس بتارہی ہے۔ آپ پہلے صرف بول چال لباس میں مشابہت اختیار کرتے ہیں پھر مکمل دوسری جنس میں ڈھلنے کی خواہش پیدا کر بیٹھتے ہیں۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ مغربئ لباس غلط ہے نہیں۔ہر خطے کے لباس میں مرد و عورت کی تشخیص ہے۔ مشابہت کا مطلب ہے آپ نے اکثر لڑکیاں دیکھی ہوں گی جو خود کو فخر سے ٹام بوائے کہلواتی ہیں، مردوں کی طرح کا لباس پہنتی ہیں بولتی چالتی ہیں، اور لڑکے زنانہ پن سے نزاکت سے بات کرتے ہیں ، کوشش کرتے ہیں لڑکوں سے دور رہیں وغیرہ۔یہ سب دیکھ کر اللہ کا لاکھ شکر ادا کرتی ہوں ہم مسلمان پیدا ہوئے ہیں۔ ان تمام مسائل سے ہمیں اسلامی شعائر بچا لیتے ہیں۔ لیکن جس تیزی سے اب ہمارے نام نہاد روشن خیال لوگ LGBTQ کی حمایت میں اترتے ہیں خود کو جنس سے ماورا قرار دیتے ہیں ، یا ایسے لوگوں کی حمایت کرتے ہیں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ عام مسلمان کو وہ محض اپنے فکریہ سے متاثر نہیں کرپائے تو کچھ غیر عملی مسلمانوں پر پیسہ لگا کر انکو ہماری ذہن سازی پر لگا رکھا ہے۔

For all Keyboard warriors who were constantly blaming me for promoting West agenda plz read thishttps://www.livemint.com/…/imane-khelif-is-male-claims…definitely if she is suffering from DSD she is gender neutralyou guys really need to get a life

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Surprise short urdu horror story|کہانی: “تین بہن بھائیوں کا سرپرائز”
Dead talent society | UNIQUE HORROR COMEDY| MUST WATCH
©2025 urduz web blog | Design: Newspaperly WordPress Theme