یہ کہانی ماہنامہ “انوکھی کہانیاں” کے “خوف ناک کہانی نمبر” کے لئے لکھی تھی جب پلاٹ تیار ہوا تو ماحول انگریزی فلم جیسا لگ رہا تھا سو کرداروں کے نام بھی اسی مناسبت سے رکھ لیے
۔ کہانی البتہ طبع زاد ہے کہیں سے کاپی نہیں کی گئی
۔بچے جاگ جائیں گے (کہانی)
ہیری کے مام اور ڈید نئے مکان میں سامان سیٹ کرنے میں مصروف تھے۔ ہیری ہال سے نکلتے ہوئے مکان کے عقبی صحن میں نکل گیا اس چھوٹے سے صحن میں ایک خوبصورت درخت تھا۔ درخت پر جونہی ہیری کی نظر پڑی تو اس کے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی اور اس پر خوف طاری ہوگیا
ہیری نے اچانک آواز دی مام! ڈیڈ!کیتھی اور ڈیوڈ دوڑتے ہوئے عقبی صحن میں آئے۔”کیا ہوا ہیری؟”
ڈیوڈ نے پوچھا۔”یہ کوئی پراسرار درخت ہے اسے دیکھ کر میں خوف محسوس کر رہا ہوں”
ہیری نے اپنے خدشے کا اظہار کردیا۔”یہ پَر کیسے ہیں” ڈیوڈ نے درخت کے نیچے بکھرے ہوئے پَروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”وہی تو، ڈیڈ! مجھے لگتا ہے اس درخت پر کوئی بھوت یا چڑیل رہتی ہے دیکھیں اس پر دو تین گھونسلے بھی ہیں لیکن ویران ہیں”
ہیری نے تجسس بھرے لہجے میں کہا۔”شاید اس گھر کا مالک شکار کا شوقین تھا”
کیتھی بولی۔”لیکن شکاری لوگ پرندے کے پَر چونچ اور پاؤں ایک سلیقے سے الگ کرتے ہیں”
ہیری نے کہا۔”ممکن ہے کہ وہ اپنے پالتو جانور کے لیے شکار کرتا ہو بہرحال اتنی کم قیمت پر ہمیں اس سے اچھا مکان نھیں مل سکتا”
کیتھی بولی۔”یہی چیز تو اسے مشکوک بناتی ہے کہ اتنی کم قیمت میں کوئی اتنا بڑا مکان بھلا کیوں بیچے گا’
‘ ہیری نے تجسس ظاہر کیا۔”بس بہت ہو گیا ہیری! یہ مکان آبادی سے تھوڑا دور ہے اس لیے کم قیمت ہے۔ تم یہ جاسوسی ناول پڑھنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے تمہیں پتہ ہے کہ ہم ابھی ابھی تمہاری وہمی عادت کی وجہ سے ایک اچھا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں”
کیتھی پھٹ پڑی ”جاؤ تم دونوں جا کر سامان سیٹ کرو میں یہاں صفائی کرتی ہوں”کیتھی نے صفائی کر کے درخت کے نیچے کچھ دانے بکھیر دیے ”شاید کوئی پرندہ آکر یہاں گھونسلا بنا لے”ہیری عقبی صحن کی طرف کم ہی جاتا تھا اور کیتھی درخت کے نیچے باقاعدگی سے دانا ڈال رہی تھی۔
”ہیری! تمہیں پتا ہے وہاں درخت پر ایک خوبصورت پرندے نے گھونسلا بنایا ہے” کیتھی نے ہیری کو اطلاع دی۔
ہیری نے بات سنی اَن سنی کردی اور موبائل پر گیم کھیلنے میں مصروف رہا کیتھی نے سکول کی کتابوں کے علاوہ ہیری کا باقی لٹریچر لے لیا تھا اس لیے سکول سے آنے کے بعد ہیری کا وقت ٹی وی دیکھتے یا موبائل پر گیمز کھیلتے ہی گزرتا تھا۔اسی طرح کافی دن گزر گئے ایک رات ہیری سونے کے لیے جب اپنے کمرے میں آیا تو کھڑکی سے باہر کافی روشنی نظر آ رہی تھی۔ ہیری کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے لگا آسمان پر پورا گول چاند نظر آرہا تھا۔ یہ چاند کی چودہ تاریخ تھی چاند کی چاندنی سے درخت کے پتے چمک رہے تھے اور یہ درخت اور بھی دلکش نظر آ رہا تھا لیکن ہیری کو اس منظر سے وحشت ہو رہی تھی۔ اس نے کھڑکی بند کی اور بستر پر آ کر سو گیا۔
اگلی صبح کیتھی اور ہیری ناشتے کی میز پر تھے کہ ڈیوڈ نے عقبی صحن سے آتے ہوئے اطلاع دی ”اس پرندے کو بھی کسی چیز نے کھا لیا ہے اور اس کے پَر اسی طرح بکھرے پڑے ہیں”
ہیری کچھ کہنا چاہتا تھا کہ کیتھی بولی۔”ہیری! میں کوئی فضول بات نہیں سننا چاہتی یہ کسی جنگلی جانور کا کام ہے ایک دو ماہ کی بات ہے میری نوکری لگ جائے تو ہم دیواروں پر باڑ لگوا لیں گے اور سکیورٹی کیمرے بھی”
ہیری بولا ”مام! کیا ہم باڑ اور کیمرے ابھی نہیں لگوا سکتے؟ پلیز۔۔””نہیں ڈیئر! تمہارے ڈیڈ ابھی گاڑی کی قسطیں دے رہے ہیں اور مکان کے لیے جو لون لیا ہے وہ بھی چکانا ہے۔” پھر کیتھی نے ڈیوڈ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”کیا تم وہاں سے پرانے گھونسلے اتار سکتے ہو؟ پلیز۔ڈیوڈ نے گھونسلے اتارنے کے بعد نیچے اترتے ہوئے ایک چھوٹی ٹہنی پر پاؤں رکھا تو اسے آواز آئی ”مسٹر ڈیوڈ! ذرا دھیان سے، کوئی ٹہنی نہ ٹوٹے ورنہ میرے بچے جاگ جائیں گے۔”ڈیوڈ نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا ”یہ آواز کہاں سے آئی ہے؟ کیا یہ درخت کی آواز ہے؟” خوف سے اس کے ماتھے پر پسینہ آ رہا تھا۔ وہ جلدی سے نیچے اتر آیا ڈیوڈ کو اس واقعے نے کئی دن تک پریشان رکھا
وہ سوچ رہا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ ”بچے جاگ جائیں گے” لیکن وہ اس واقعے کا تذکرہ کیتھی اور ہیری سے نہیں کرنا چاہتا تھا۔?کیتھی باقاعدگی سے درخت کے نیچے دانہ ڈال رہی تھی۔
کافی دن گزر گئے آخر ایک اور پرندے نے وہاں گھونسلہ بنا لیا لیکن اب یہ بات اتنی اہم نہیں تھی۔ایک دن ہیری رات دیر تک ٹی وی دیکھتا رہا اور جب سونے کے لیے اپنے کمرے میں آیا تو پردوں کے بیچ سے کھڑکی کے باہر پورے گول چاند کی روشنی نظر آ رہی تھی۔ ”شاید آج چاند کی چودہ تاریخ ہے” ہیری نے خود کلامی کی اور پھر اس کے ذہن میں پچھلے مہینے والا واقعہ کسی خوفناک فلم کی طرح چلنے لگا اور اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اسے کوئی بات سمجھی تھی ”کیا وہ چیز چاند کی چودہ تاریخ کو حملہ کرتی ہے؟ مجھے آج دیکھنا ہوگا”یہ سوچ کر وہ کھڑکی کے قریب ہوگیا لیکن اس نے پردہ نہیں ہٹایا اور دونوں پردوں کے درمیان میں بننے والے سوراخ سے باہر کا منظر دیکھنے لگا۔
بالکل اسی طرح درخت کے پتے چاند کی روشنی میں چمک رہے تھے اور درخت پر ایک دلکشی سی چھائی ہوئی تھی ”اس پرندے کو یہاں گھونسلہ بنائے ابھی دو تین دن ہی ہوئے تھے اے کاش اس کے ساتھ ایسا نہ ہو” آدھی رات ہو چکی تھی کہ اچانک ہیری باہر کے منظر سے چونک اٹھا درخت کے پتے سرخی مائل ہو رہے تھے ہیری حیرت سے اپنی آنکھیں ملنے لگا یہ وہم تھا یا حقیقت؟ دیکھتے ہی دیکھتے سرخی تمام پتوں پر ایسے چھا گئی جیسے ابھی ان پتوں سے خون ٹپکنے لگے گا ہیری گھبراہٹ کے عالم میں سرخ پتوں کے درمیان اس گھونسلے کو تلاش کر رہا تھا جو جلد ہی اسے نظر آ گیا ٹھیک اسی لمحے ایک ٹہنی نے اس پرندے کو اپنے اندر جکڑ لیا درخت کے درمیان والے تنے نے منہ کھولا اور ٹہنی نے اس پرندے کو اس میں دھکیل دیا پرندے کی ہلکی سی آواز نکلی اور اس کے پر اڑتے ہوئے زمین کی طرف آنے لگے ہیری یہ منظر دیکھ کر بے ہوش ہوگیا
اگلی صبح کیتھی ڈاکٹر کو دروازے تک چھوڑ کر واپس ہیری کے پاس آئی جہاں ڈیوڈ بیٹھا ہیری کے بال سہلا رہا تھا ہیری کو ہوش آ چکا تھا لیکن اس پر پچھلی رات کی دہشت طاری تھی پھر وہ اچانک بولا ”وہ درخت، وہ ایک وحشی درخت ہے پرندوں کو وہی مارتا اور کھاتا ہے”
”ہیری ڈیئر! ابھی تم ٹھیک نہیں ہو بعد میں بات کریں گے” کیتھی بولی”مام! رات اس نے اسے بھی کھا لیا” ہیری کھوئی کھوئی سی آواز میں بول رہا تھا ”رات چاند کی چودہ تاریخ تھی نا اور پچھلی بار بھی۔۔۔””ہیری ڈیئر! یہ محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جانور اس بار بھی۔۔۔” کیتھی بولی”لیکن جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے” ہیری نے ٹوک دیاہیری کی بات کو سنجیدہ لینا چاہیے”
ڈیوڈ نے کہا”اوکے! امید ہے مجھے آج نوکری مل جائے گی چاند کی چودہ کو ابھی پورا مہینہ پڑا ہے مجھے پہلی تنخواہ ملے گی تو سیکورٹی کیمرے لگوا لیں گے پھر تم دونوں کا شک دور ہو جائے گا ابھی مجھے انٹرویو کے لئے نکلنا ہے تم دونوں ناشتہ کر لینا” کیتھی نے دروازے سے نکلتے ہوئے کہااسی طرح دن گزرتے گئے کیتھی نے درخت کے نیچے دانہ ڈالنا چھوڑ دیا تھا
ہیری نے سکول کی فٹ بال ٹیم میں حصہ لے لیا اور سکول سے آتا تو دوستوں کے ساتھ کھیلنے نکل جاتا کسی کا اس طرف دھیان نہیں تھا اور چاند کی چودہ تاریخ پھر سے آ گئی ہیری شام کو اپنے کھیل سے تھکا ہوا گھر آیا اور کھانا کھا کر سو گیا ڈیوڈ کو اس رات بہت بے چینی تھی وہ ہیری کی باتوں پر یقین رکھتا تھا آدھی رات کے قریب وہ کچھ سوچ کر اٹھا اور کھڑکی کے پاس آ بیٹھا
پتوں نے اپنا رنگ تبدیل کرنا شروع کر لیا تھا ڈیوڈ اطمینان سے دیکھ رہا تھا جیسے اسے پتہ ہو کہ کیا ہونے والا ہے پھر اچانک اس کے دماغ میں ایک خیال کوندا ”اس بار تو کسی پرندے نے اس درخت پر گھونسلہ نہیں بنایا پھر یہ درخت کسے کھانا چاہتا ہے؟” اتنی دیر میں سارا درخت سرخ ہو چکا تھا اور پھر اچانک اس کی شاخیں ہیری کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی
ڈیوڈ کو پاؤں تلے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن اگلے ہی لمحے اس نے فیصلہ کر لیا ڈیوڈ نے دوڑ کر سٹور سے کلہاڑی لی اور ہیری کے کمرے کی طرف بھاگا درخت کی شاخیں ہیری کو اپنی گود میں اٹھا کر کھڑکی سے باہر لے جانے کی کوشش کر رہی تھیں ڈیوڈ نے وہاں پہنچتے ہی کلہاڑی سے شاخوں پر وار کرنا شروع کیا
ٹہنیاں کٹتی گئیں اور ہیری انکی گود سے زمین پر آ گرا اور ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا درخت کی چیخیں گھر میں گھونج رہی تھیں اتنے میں کیتھی بھی ہیری کے کمرے میں پہنچ چکی تھی
”ڈیوڈ یہ کیا ہو رہا ہے””ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا” ڈیوڈ نے چلاتے ہوئے جواب دیا
درخت کی آواز آئی ”تم لوگ کہیں نہیں بھاگ سکتے میرے بچے جاگ رہے ہیں لکڑی کی بنی ہر چیز تمہارا راستہ روکے گی تم یہاں سے نکل بھی گئے تو تمہارے ہاتھوں میں میرے خون کی خوشبو پا کر میرے بچے تمہارا پیچھا کریں گے تم سب برباد ہو جاؤ گے”
”گیراج کی طرف چلو” ڈیوڈ نے دوڑتے ہوئے کہاگاڑی میں بیٹھ کر انہوں نے گاڑی سٹارٹ کی تو دیکھا گیراج کا لکڑی کا دروازا خود بخود بند ہو گیا تھا اور اس پر سرخی چھا چکی تھی۔”کیا یہ ہمیں جانے دے گا؟” کیتھی ڈر سے روتے ہوئے بولی۔ڈیوڈ نے گاڑی کو گیئر میں ڈالا اور ریس دے کر کلچ چھوڑ دیا ایک خوفناک چیخ کے ساتھ دروازا ٹوٹ گیا اب وہ مین روڈ پر نکل چکے تھے لیکن اب انہیں ساری زندگی لکڑی کی چیزوں سے دور بھاگنا تھا۔
شہزاد احمد کھرل
مزید ڈرائونی کہانیاں پڑھیئے