نہایت دل دکھانے والی خبر سامنے آئی کہ مشہور اداکارہ عائشہ خان جو اب اکثر والدہ کے کردار میں نظر آتی تھیں انکی لاش انکے فلیٹ سے ایک ہفتے کے بعد ملی ہے۔ افسوس صد افسوس ہمارے فنکار جب تک جوان رہتے ہیں انکو پوچھنے والے لوگ ہزاروں ہوتے ہیں جہاں شوبز سے دور ہوئے کسمپرسی کی حالت میں کبھی کسی بیماری سے لڑتے اسپتالوں کے دھکے کھاتے ہیں تو کبھی یوں گمنام موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ایک خبر آئی تھی کہ عمر رسیدہ دو بہنیں بھوک سے نڈھال ہو گئیں ایک کا انتقال ہوگیا دوسری تشویشناک حالت میں اسپتال میں داخل ہے۔ جانے انکا اب کوئی پرسان حال ہوگا کہ نہیں۔
پہلے نا ممکن ہوتا تھا کہ پڑوس میں کون رہتا کیا کرتا یہ معلوم نہ ہو۔ اب جب سے ہم سو کالڈ پرائویسی کی علت میں مبتلا ہوئے ہیں پڑوس میں کوئی بھوک سے مر جائے ہم اپنا فریج بھرا رکھیں گے۔ بزرگوں کا اکیلا رہنا تو مغرب میں بھی آج تک ممکن نہیں وہاں بھی باقائدہ تنظیمیں ہیں اولڈ ہوم ہیں جہاں سب ایک جیسے عمر رسیدہ لوگ اپنا وقت مختلف سرگرمیوں میں لگ کر گزارتے ہیں۔ وہاں 90 سال کی عمر میں بھی زندگی کی قدر رہتی ہے یہاں پچاس کے ہوئے نہیں بڑھاپا طاری ۔ ہمارا معاشرہ بہت تکلیف دہ روائیتیں اپنا کر چل رہا ہے۔ اولڈ ہوم گالی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اپنے بزرگوں کو وقت نہ دے کر انہیں کمروں میں محدود کرکے اٹھتے بیٹھتے انکے بڑھاپے کا احساس دلانے سے بہتر کیا یہ نہیں کہ وہ اپنے جیسے لوگوں کے درمیان رہتے صحت مند سرگرمیوں میں مشغول رہیں؟
یا یہ بہتر لگتا ہے کہ اکیلے پڑے مرجائیں ایک ہفتے بعد لاش دریافت ہو۔