یہ واقعہ میرے ساتھ تین چار سال قبل پیش آیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ہمارے گھر کچھ مہمان آئے جیسا کہ راولپنڈی اسلام آباد میں رہنے والوں کے ساتھ ہوتا مہمان دوسرے شہر سے آئیں تو انہیں ضرور فیصل مسجد دامن کوہ وغیرہ دکھانا پڑتا ہے۔ اب یہ مہمان بس میاں بیوی بچوں والے تھے انکو لیکر ہم فیصل مسجد گئے رات کے کوئی دس بجے کا وقت ہوگا۔مسجد میں داخلہ بند ہو چکا تھا گرائونڈ وغیرہ میں مکمل اندھیرا تھا بس احاطے میں روشنی تھی۔
اس روز وہاں رش بہت ذیادہ نہیں تھا۔ خیر میں نے انکے سب سے چھوٹے بیٹے کو جو شائد سات آٹھ مہینے کا ہوگا گود میں لیا ہوا تھا ہم سب صحن کے اطراف میں ٹہل رہے تھے کہ اچانک بچے نے میرے کندھے سے سر اٹھا کر ہمکنا شروع کردیا ہمک ہمک کر یوں ہاتھ اٹھا رہا اور چہک رہا جیسے گود میں جانا چاہتا ہو۔ وہ میرے دائیں جانب دیکھ رہا تھا ۔ میں نے چونک کر مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آیا تو میں نے قل پڑھ کر بچے پر دم کردیئے۔ بچے نےاسکے بعد جو رونا شروع کیا۔ خیر اسے تو بہلا لیا گیا۔ میں البتہ تھوڑی تھکن محسوس کرنے لگی۔
خیر واپسی پر ہم نے رک کر ایک جگہ سے کھانا کھایا سب ٹھیک تھا اچانک میری طبیعت خراب ہونا شروع ہوگئ۔ ایسا لگا جیسے میری آنتیں تک منہ سے باہر آنا شروع ہو جائیں گی ایسی گھبراہٹ تکلیف تھی کہ سمجھ نہ آیا۔ مجھے فوری طور پر ایمرجنسی میں لیکر گئے وہاں مجھے ٹیکا لگایا گیا الٹی دلائی گئ۔ہلکی پھلکی بدہضمی کہاگیا۔ میری طبیعت کا بوجھل پن کم ہواہم۔گھر واپس آگئے
یہاں سے شروع ہوئی ایک نئی مصیبت۔ میری کمر میں شدید درد اٹھا۔ اتن شدید کہ نا مجھ لیٹا جائے نا بیٹھا۔ بس کھڑی رہوں۔ کرتے کرتے تکلیف اتنی بڑھی کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر میں گھر میں چکراتی رہتی لیٹنے سے تکلیف بڑھ جاتی ایسا بھی ہوا کہ سمجھ نہ آیا تو سادہ زمین پر صرف چادر بچھا کر لیٹ جاتی مگر چین نہ پڑتا۔ ڈاکٹر کے پاس گئے۔ دوائیں کھائیں۔ دو مہینے تو سیدھا یہ حال کہ میں نا لیٹ سکتی تھی نا بیٹھ سکتی تھی کھڑی رہتی ہر ٹوٹکا آزمایا، گرم پانی کی بوتل مالش سنکائی۔ کسی چیز کا کوئی اثرنہیں۔ اسپتال کا رخ کرنا پڑا ایکسرے ہوا۔معمولی پٹھوں کا کھنچائو نکلا۔ اس نے کیلشیئیم سپلیمنٹ تجویز کیئے فزیو تھراپی بھی۔ ساتھ ساتھ مجھے ایسی نظروں سے بھی دیکھا ایویں نخرے ذیادہ کر رہی ہے تکلیف اتنی کوئی نہیں۔ اب یہ میں جانتی تھی یا میرا خدا کہ تکلیف کی کیا شدت تھی جو میں محسوس کر رہی تھی۔ خیر فزیو تھراپی کیلئے جس ڈیپارٹمنٹ جانا تھا وہاں جانے کا سوچ کے بندہ خوف کھائے۔ جی یہ ایک زیر زمین ڈیپارٹمنٹ تھا جو پہلے مردہ خانہ تھا۔ وہاں اب انہوں نے فزیو تھراپی وارڈ قائم کردیا۔ نہایت اندھیرا راستہ اور عجیب سنسانی سی حالانکہ بڑی تعداد میں اسٹاف اور مریض موجود تھے۔میری تکلیف اس ڈیپارٹمنٹ تک آتے جانے کیسے خودبخود کم ہوئی۔ مگر ختم ابھی بھی نہیں ہوئی۔ کچھ جگہ کا اثر تھا کہ کہا میری والدہ نے مجھے تڑپتے دیکھ کر مجھ پر کچھ نہ کچھ پڑھ کر پھونکنا شروع کیا۔ مجھے آج بھی یاد کہ میری ماں کے ہونٹ لمحہ بھر کا توقف نہیں کر رہے تھے اور مستعل سورتیں پڑھنے سے خشک ہورہے تھے میں باری کا انتظار کررہی تھی میری ماں دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونک رہی تھی۔ فزیو تھراپی کی جب باری آئی تو وہی۔نظریں ڈاکٹر کی کھایا پیا کرو اور ایک دو سٹنگز سے ہی آرام آجائے گا اب وہاں لوگ یقینا جسمانی طور پر جو جو تکلیفوں کا شکار تھے انکے آگے یقینا انکو میں بالکل ٹھیک ہی لگ رہی تھی۔ اب ہوا یوں کہ مجھے مشین لگائی جا رہی تھی اور میں سوچ میں پڑی ہوئی کہ کہاں تکلیف تھی مجھے۔ میری ماں وہی پڑھے کچھ اور مجھ پر پھونکے۔
ڈاکٹر کے ساتھ ایک فزیو تھراپی سیشن کے بعد میں خود چل کر گھر آئی۔ میری رنگت بحال ہوچکی تھی گھر والے مجھے چئیر اپ کر رہے تھے۔۔۔۔ یہ واقعہ خوفناک نہیں مگر ایسی بیماری جسکی طبی بنیادوں پر نہ تشخیص ہو پارہی ہو نا تصدیق اسکو سوائے اسکے کہ کوئی جھپیٹا تھا اور کیا کہیں گے؟؟؟؟؟؟اگر آپ اپنے ساتھ پیش آنے والے غیر معمولی واقعات کو بلاگ پر شائع کرنا چاہیں تو کمنٹ کیجئے۔۔۔