یونیورسٹئ میں بھوت
میں بس سے آتئ تھی تو اکثر صبح سب سے پہلی بندئ کلاس کھول کر بیٹھنے والی میں ہوتی تھی۔ جو ایک آدھ لڑکے آتے بھی بیگ رکھ کر باہر نکل جاتے تھے۔ تو اگر صبح میں اکیلی کلاس میں ہوں تو مستقل احساس ہوتا تھا کہ اکیلی نہیں ہوں۔ سر اٹھا کر دیکھو پیچھے تو کوئی نہیں۔ مگر مستقل کھٹر پٹر کرسی گھسیٹنے کی آواز کوئی آکر بیٹھ گیا۔ ہلکی پھلکی باتیں کرنے کی آوازیں جنہیں ہمیشہ وہم سمجھ کر ٹالا۔
ایک دن بارش کا موسم تھا بادل چھائے تھے۔ دھوپ نہیں تھی۔ میں اور میری سہیلی دونوں فٹھ پاتھ پر بیٹھی گپیں لگا رہی تھیں۔ سوچا تصویر لیں۔میں اسکے بالکل برابر بیٹھی تھی سیدھی ہو کر تصویر لی تصویر لیتے ہی ایکدم سے عجیب سا احساس ہوا ۔
میں نے اسے کہا مڑ کر پیچھے دیکھو۔ اس نے مڑ کر دیکھا ۔عام سا منظر تھا ۔ خالی یونیورسٹی کی اندرونی سڑک سامنے سے کوئی پانچ سات لڑکیوں کا گروپ کالے عبایا پہنے آرہا تھا۔اس نے مجھ سے پوچھا کیا ہوا ؟ میں نے اسے موبائل میں کھینچی تصویر اسے دکھائی۔ اسکی ہی تصویر اسے سمجھ نہ آیا۔ میں نے اسے بتایا بیک گرائونڈ دیکھو۔ تصویر کے بیک گرائونڈ میں جہاں وہ عبایا والی پانچ سات لڑکیاں ہونی چاہیئے تھیں وہاں تھے دو عدد لڑکے۔ عام سی صورت کے عام سے لڑکے یونیورسٹی بیگ لیئے باتیں کرتے گزر رہے تھے۔
ہو سکتا ہے وہ لڑکے کہیں مڑ گئے ہوں۔ اس نے مجھے جھٹلایا۔ سامنے کھلا گرائونڈ تھا اور پھر دور ہاسٹل کی عمارت۔دو عدد نارمل سائز کے لڑکے بھاگ کے بھی چھپیں کہیں تو فلیش جتنی پھرتی دکھا نہیں سکتے تھے ۔ دوسرا لمحہ بھر کا وقفہ تھا سب سے بڑھ کر تصویر کھینچتے مجھے احساس ہوگیا تھا کہ جو بیک گرائونڈ موبائل میں نظر آرہا وہ سچ مچ اسکے پیچھے نہیں۔ ہم دونوں نے باقائدہ اٹھ کر دیکھا کہ اس رستے پر مگر وہ دونوں لڑکے کہیں نہ تھے۔ میرے سامنے اس پیرانارمل چیز کو ہوتے دیکھ کر بھئ میری اپنی سہیلی آج تک جھٹلاتی ہے وہ لڑکے ہی ہوں گے ادھر ادھر ہو گئے ہوں گے۔
یہ تصویر میں نے اپنے گھر میں سب کو دکھائی پھر گوگل ڈرائیو پر اپلوڈ کرکے فون سے ڈیلیٹ کی کیونکہ سب نے وہم دلا دیا۔ آج تک مجھے وہ تصویر دوبارہ نہیں ملی ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گئ۔