horror october
پھیکا پھیکا اکتوبر جا رہا ہے۔ تو مجھے سننے ہیں ڈرائونے قصے۔ چلو پیج میمبرز سنائو ڈرائونے قصے ۔ انباکس کرنا میں تم لوگوں کے نام سےپوسٹ کروں گی۔
ابھی اپنی یادداشت کے خزانے سے کوئی موتی شئیر کرتی ہوں۔
جیسے میں پہلے بتا چکی ہوں کہ ہمارا بچپن بلکہ ابھی تک جنات آسیب سے ہمارا پالا پڑا ہوا ہے ۔ کچھ گھر آسیبی تھے کچھ ہمارے عزیز رشتے داروں کی مہربانی۔
خیر چھوٹے چھوٹے کئی واقعات ہیں جو ہمارے ساتھ پیش آتے رہے ان میں سے چند مزید پیش خدمت ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ابھی سال بھر پہلے کی بات ہوگی ہمارا اوپن کچن کے ساتھ لابی اور لابی میں لائونج کا داخلی اور ڈرائنگ روم کا اندرونی دروازہ کھلتا تھا۔ تو دروازے کا لاک کھولنے میں اکثر کھڑ کھڑ سے کچن میں جو بھی موجود ہو اسکو آواز آجاتی تھی۔ تو میں برتن دھو رہی تھی تو کسی نے لائونج کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ ہینڈل اوپر نیچے ہو رہا تھا تو میں نے نلکا بند کیا دروازے کو کوئی ایسے زور لگا رہا تھا کہ جیسے کھل نہ رہا ہو او رمیں نے مدد کی غرض سے دروازہ فورا کھول دیا۔ سامنے بندہ نہ بندے کی ذات۔
گیراج خالی پڑا ہوا اور دروازے سے باہر جالی کا دروازہ بھی بند۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح ایک دن میں اور میری بہن سو نے کے ارادے سے لیٹے تھے۔گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے انکی باہر سے آوازیں آرہی تھیں ہم نے چونکہ صبح جانا ہوتا تو سونے لیٹ گئیں۔ لائٹ بند تھی نائٹ بلب آن تھا۔ ڈبل بیڈ پر ایک کونے میں میری بہن دوسری جانب میں ۔ چھوٹی بہن دروازہ کھول کر آئی اور آکر بیچ ہمارے درمیان لیٹ گئ۔ میں اور میری بہن ہم دونوں نے بازو بڑھا کر اسے چھونا چاہااور اکٹھے بولیں۔ کہ آگئیں تم نیند آگئ وغیرہ اور ہم دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔ کیونکہ ہمارے بیچ کوئی بھی نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بہن کو سلیپ پیرالسز بہت ہوتا تھا۔ اور وہ خاصی پریشان تھی۔ اتنی پریشان کہ اکیلے سونے کو بھی تیار نہیں تھی۔ میں نے سلیپ پیرالسز کے علاج کا طریقہ بلاگ میں لکھا ہے پیج پر جا کر سرچ میں اردو میں سلیپ پیرالسز لکھنا مل جائے گا بلاگ نہیں تو کمنٹ کرنا میں لنک شئیر کردوں گی ۔ خیر ایک دن وہ بے خبر سو رہی تھی میں کمرے سے ملحقہ بیت الخلا میں تھی۔ باہر نکلی تو نیم اندھیرے میں میں نے دیکھا ایک عورت سرسے کالی چادر اوڑھے بالکل سیاہ ہیولا وہ بھئ عورت کا میری بہن کے اوپر بیٹھی ہوئی تھی بیڈ پرپیر لٹکائے۔ میں سمجھی مما ہیں کیونکہ سلیپ پیرالسز کی وجہ سے اکثر وہ رات کو آکر بہن پر دم کرتی تھیں۔میں نے سوچا مخاطب کروں آگے بڑھنا چاہا میری آنکھوں کے سامنے وہ عورت تحلیل ہوگئ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بچپن کی بات ہے میں کوئی سات آٹھ سال کی ہوں گی ہم اوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ ٹیرس میں باتھ روم کا دروازہ کھلتا تھا۔ میں واش بیسن میں ہاتھ دھو رہی کہ یونہی ٹیرس پر نظر ڈالی۔ دروازے میں زمین سے تھوڑا اونچا تقریبا میرے جتنا اونچا ایک فٹ بال کی طرز کا کالا گولا تھا جس میں سے ننھے ننھے زرے سے چمک رہے تھے۔ یہ گولا دھیرے دھیرے دروازے کے سامنے سے گزر گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا گھر مرگھٹ یعنی شمشان گھاٹ کے اوپر بنا ہوا تھا۔( بقول ان کے جن سے ہم نے پتہ کروایا تھا کہ گھر میں کیا معاملات ہیں)
اسی گھر میں دادی کا انتقال ہوا۔ دادی کا انتقال ہوگیا۔ابھی چالیسواں نہیں ہوا تھا۔کچھ دن ہی ہوئے تھے انکے انتقال کو لیک ہم بچوں کو دادی نظر آتی رہتی تھیں۔کبھی کہیں کبھی کہیں۔ ایک دن میں اپنے والد کے ساتھ ٹیرس پر تھی ادھر ادھر پھر رہی تھی جبکہ وہ کسی رشتے دار کے ساتھ کھڑے تھے باتیں کررہے تھے۔ ہمارے گھر کے باہر ایک بس کھڑی تھی۔ جو شائد محلے میں کسی نے منگوا رکھی تھی ۔کوئی تقریب ہوگی انکے ہاں۔ میری یونہی بس پر نظر پڑی تو اسکی چھت پر دادی کھڑی تھیں۔ میں نے پپا کو فورا بتایا پپا وہ کھڑی ہیں دادی۔ پپا چونکے بولے کہاں کھڑی ہیں؟ میں نے اشارہ کرکے بتایا تو وہ میرے دیکھتے دیکھتے غائب ہوگئیں۔
ایسا میرے بہن بھائیوں نے بھی دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
